شادی سہانا سپنا!مگر یہ سہانا سپنا ڈراؤنا کب بنتاہے؟
شادی کے بارے میں اکثرکہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا خوش نما قلعہ ہے جو باہر سے دیکھنے والوں کو انتہائی متاثر کرتا ہے اور ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے اندر جاکر دیکھیں جبکہ قلعہ کے مکین اس کی دیواریں پھلانگ کر باہر آنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔عموماً شادی شدہ لوگوں کی اکثریت غیر شادی شدہ زندگی کو زیادہ اہمیت دیتی نظر آتی ہے۔ بلکہ ایسے افراد بھی ملتے ہیں جن کے خیالات غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے بڑے ہولناک ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’غیر شادی شدہ ہونا ایک نعمت ہے جبکہ شادی ایک زحمت شادی سہانا سپنا ضرور ہے لیکن اس کی مدت بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ غیر معمولی محبت کرنے والے جوڑے کا بھی ہنی مون کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک کا ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد تمام تر رومانس غبار بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے اور زندگی بے کیف اور روکھی پھیکی ہو جاتی ہے۔
ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی خواتین
ضروری نہیں کہ ہر شادی شدہ شخص ایسا سوچتا ہو اور نہ اس معاملے میں سب کے تجربات ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ شادی کے بعد مردوں کو قانونی اور اخلاقی طور پر اپنی تمام تر وفائیں اور محبتیں بیوی کے نام کرنا پڑتی ہیں۔ دوسری جانب بیویاں بھی نئی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جاتی ہیں۔ سہیلیوں اور عزیز و اقارب سے پہننے اوڑھنے سمیت دیگر معمولات زندگی میں بھی معاشی مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ شوہر کی قربت سے زیادہ مالی مضبوطی کی خواہش بڑھتی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ شوہر کی حیثیت ایک پیسہ کمانے والی مشین کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ سال چھ ماہ بعد سسرال کی جانب سے تمام تر تکلفات بھی برطرف کردیئے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں مل کر کسی پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جو سب انہیں تنہا نبھانی پڑتی ہیں۔ خواتین کے مزاج میں تلخی اور غصہ بڑھنے لگتا ہے۔ اسی دوران اگر کسی نومولود کی آمد ہو جائے تو زندگی یکسر نئی ڈگر پر چل نکلتی ہے۔
شادی کے بعد کئی صبر آزما مراحل آپ کا استقبال کررہے
کئی مزید صبر آزما مراحل دونوں کا استقبال کرتے ہیں۔ بچوں کے پاجامے بدلنے، ڈاکٹروں کے چکر لگانے جیسے معمولات بھی پریشان کردیتے ہیں۔ دفتر کے بعد گھر آکر بھی کئی ذمہ داریاں مردوں کی منتظر ہوتی ہیں۔ شادی کے ابتدائی دنوں
میں گھنٹوں باتیں کرکے نہ تھکنے والے میاں بیوی کے پاس اب ’’کیا پکایا جائے؟ اور کیا کھایا جائے؟‘‘ جیسے روایتی اور گھسے پٹے جملے رہ جاتے ہیں۔جس طرح مردوں میں بیوی کے انتخاب کا پیمانہ مختلف ہے اسی طرح خواتین بھی ایک جیسی رائے نہیں رکھتیں۔ بعض کے نزدیک محبت اہم ہے جبکہ اکثر محبت کو محض ایک جذباتی اور تصوراتی چیز خیال کرتی ہے۔ کچھ کے خیال میں پیسہ سب سے ضروری چیز ہے اگر یہ ہوتو شکل و صورت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایسی بھی لڑکیاں ملتی ہیں جو خالصتاً ایسے گھرانے کی تلاش میں ہوتی ہیں جو مختصر ہو اور نندوں وغیرہ کی جھک جھک سے محفوظ رہا جاسکتے۔ بعض کے نزدیک بڑی عمر والے مرد زیادہ چاہئے اور خیال رکھنے والے ثابت ہوتے ہیں۔ کچھ تعلیم کو سب سے اہم خیال کرتی ہیں۔
ہمدرد اور محافظ شوہر ہر لڑکی کی اولین خواہش
بہرحال معیار کچھ بھی ہو ایک توجہ دینے والا، ہمدرد اور محافظ شوہر ہر ایک لڑکی کی اولین خواہش ہوتا ہے۔شریک حیات کے انتخاب کے حوالے سے بعض مردوں کا خیال ہے کہ بیوی کو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ معصوم اور کم عمر ہو۔ کیونکہ ان کے خیال میں ان پر اجارہ داری قائم کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ مردوں سے کم پڑھی لکھی لڑکیاں زیادہ مطالبے بھی نہیں کرتیں جبکہ پڑھی لکھی بیویوں کو وکیلوں کی طرح بحث و تکرار کی عادت ہوتی ہے۔مردوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے خیال میں بیوی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے لیکن اس کی تعلیم شوہر سے ہر حال میں کم ہونی چاہیے ۔
بیوی کا مناسب حد تک تعلیم یافتہ ہونا لازمی
ان کا کہنا ہے کہ انہیں بیوی سے ارسطو اور افلاطون کے اسباق پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کی ترجیح ایک خوشگوار ازدواجی زندگی ہوتی ہے۔ ان کے بچوں کی نہ صرف بہتر دیکھ بھال کرے بلکہ انہیں رہنے سہنے کا ڈھنگ اور اٹھنے بیٹھنے کے طریقے بھی سکھائے۔ اس کے لیے بیوی کا مناسب حد تک تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے۔خواتین کی ایک قسم کا خیال ہے کہ مرد کتنے بھی پڑھے لکھے اور کیسے ہی ماحول کی پیداوار کیوں نہ ہوں فطرتاً سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ہ مردوں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں رکھتیں ۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ جو ملے گا دیکھا جائے گا۔
گھر کو قائم رکھنے کیلئے یہ بات سمجھنے کی ہے!
اسی طرح مردوں کا بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ عورت کسی طرح بھی مر د کے برابر نہیں ہوسکتی۔ وہ کم تر مخلوق اور ناقص العقل ہے۔ اس کا کام صرف بچوں کی دیکھ بھال کرنا اور گھر کو سنبھالنا ہے۔ اس سے زیادہ کی وہ اہل نہیں ہے اور اگر وہ اس سے زیادہ کچھ کرے گی تو گھر کا سکون تباہ و برباد ہو جائے گا۔سب مردوں کی یہ سوچ ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے تعلیم، پیسے اور معاشرتی اعتبار سے زیادہ بہتر اور مضبوط ہوں تاکہ گھر میں ان کی حاکمیت کا سکہ چل سکے۔اس بات سے قطع نظر کہ کون حاکم ہے اور کون محکوم یا کون ظالم ہے اور کون مظلوم؟ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ گھر کو قائم رکھنے میں کسی ایک کا حکم دینا اور دوسرے کا ماننا ضروری ہے کیونکہ مصالحت آمیز یا سمجھوتہ کا رویہ ہی دونوں کے تعلقات کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ خواہ گھر میں حکم زیادہ مرد کا چلتا ہو یا عورت کا۔ کیونکہ اگر دونوں معاشرتی، خاندانی، تعلیمی اور دیگر اعتبار سے برابری کے دعویدار ہوں تو تضاد یا اختلافات پیدا ہونے کا امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں اور اختلاف رائے کی صورت میں کوئی بھی جھکنے یا دبنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ ریاستی امور ہوں یا گھر کا نظام، فیصلوں پر عملدرآمد کرائے بغیر دونوں نہیں چل سکتے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک کے پاس ویٹو پاور کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ازدواجی زندگی میں ایسے کئی مرحلے آتے ہیں جب مضبوط اور فوری فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ان حالات میں کسی ایک کے پاس اتنی قوت اور اختیار ہونا چاہیے کہ وہ بہتر منتظم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی بات منواسکے۔بعض جگہ ماننے اور کبھی منوانے کا رحجان بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور شاید یہی وہ طبقہ ہے جو عورت اور مرد کی برابری کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہاں صورت حال عموماً اس وقت خراب ہوتی ہے جب دوسرا ضد پر اڑ جائے اور کسی صورت عملدرآمد کے لیے تیار نہ ہو لیکن اس کے باوجود برابری کے دعویدار جوڑے زیادہ تر اعتدال پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شاید ان کی ازدواجی زندگی بہت حد تک کامیاب بھی ہو تی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں